एशिया न्यूज बीड

مینارٹی ڈے: ہندوستان میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی صورتِ حال پر ایک جامع جائزہ

مینارٹی ڈے: ہندوستان میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی صورتِ حال پر ایک جامع جائزہ
  • مینارٹی ڈے: ہندوستان میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی صورتِ حال پر ایک جامع جائزہ

( ہندوستانی جمہوریت کا کٹہرہ)

*از ۔ قاضی غوث محی الدین زبیر*

*حضرت منصور شاہ ولی اردو ہائی اسکول بیڑ*

ہر سال مینارٹی ڈے ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کسی جمہوری ریاست میں ثانوی معاملہ نہیں بلکہ اس کے کردار اور نیت کا اصل پیمانہ ہوتے ہیں۔ تاہم ہندوستان کے موجودہ حالات اس سوال کو ناگزیر بنا دیتے ہیں کہ آیا یہ دن محض ایک علامتی تاریخ بن کر رہ گیا ہے یا واقعی خود احتسابی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد تنوع، تکثیریت اور آئینی مساوات پر رکھی گئی تھی۔ آئینِ ہند نے اقلیتوں کو مذہبی آزادی، ثقافتی تحفظ اور مساوی شہری حقوق کی واضح ضمانت دی۔ مگر عملی منظرنامہ اس آئینی وعدے سے مسلسل دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بالخصوص مسلمان، جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، آج ایک ایسے ماحول میں سانس لے رہے ہیں جہاں عدم تحفظ، شکوک و شبہات اور سماجی بیگانگی معمول بنتی جا رہی ہے۔

گزشتہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف جو فضا تشکیل دی گئی ہے، وہ محض چند واقعات یا انفرادی رویّوں تک محدود نہیں رہی۔ مذہبی شناخت کو سیاسی بیانیے کا محور بنا کر مسلمانوں کو کبھی آبادی کے خطرے، کبھی ثقافتی تصادم اور کبھی قومی سلامتی کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ عوامی تقریروں، سوشل میڈیا، بعض میڈیا پلیٹ فارمز اور انتخابی مہمات میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے، جس کا نتیجہ معاشرے میں تقسیم اور خوف کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کو تعلیم، روزگار، رہائش اور کاروبار جیسے بنیادی شعبوں میں شدید عدم مساوات کا سامنا ہے۔ گھیٹوائزیشن کا بڑھتا ہوا رجحان، ملازمتوں میں غیر اعلانیہ امتیاز اور تعلیمی اداروں تک محدود رسائی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان ترقی کے مرکزی دھارے سے مسلسل دور کیے جا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی ایک حکومت یا ایک پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے پنپتے ہوئے تعصب کی عکاس ہے۔

ریاستی اداروں کا کردار بھی اس تناظر میں سوالات کی زد میں ہے۔ نفرت انگیز بیانات پر تاخیر سے کارروائی، فرقہ وارانہ تشدد کے معاملات میں انصاف کی سست رفتاری اور بعض اوقات خاموشی، اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ قانون کی عملداری یکساں نہیں رہی۔ یہ خاموشی غیر جانب داری نہیں بلکہ اقلیتوں کے عدم تحفظ کو مزید گہرا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

مینارٹی ڈے کے موقع پر یہ سوال اٹھانا ناگزیر ہے کہ کیا جمہوریت صرف اکثریتی فیصلوں کا نام ہے یا کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں ایک مخصوص طبقے کو مسلسل نشانے پر رکھا جائے تو اس کے اثرات پورے سماج کو عدم استحکام کی طرف لے جاتے ہیں۔

یہ رپورٹ اس امر پر زور دیتی ہے کہ اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے مسائل کو محض سیاسی عینک سے دیکھنے کے بجائے آئینی اور انسانی تناظر میں پرکھا جائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح، غیر مبہم اور عملی اقدامات کے ذریعے نفرت کے ہر مظہر کو مسترد کرے، انصاف کو شناخت سے آزاد کرے اور مساوی شہریت کے تصور کو محض نعروں تک محدود نہ رکھے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ مینارٹی ڈے محض تقریبات، بیانات اور دعووں کا دن نہیں بلکہ ایک کڑا سوال ہے—ریاست، سماج اور اداروں سب کے لیے۔ جس دن ہندوستان کی اقلیتیں، بالخصوص مسلمان، خود کو محفوظ، باعزت اور برابر کا شہری محسوس کریں گے، اسی دن یہ دن اپنی حقیقی معنویت حاصل کرے گا۔ بصورتِ دیگر، یہ تاریخ ہر سال جمہوریت کے زخموں کو نمایاں کرتی رہے گی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *