*الہُدٰی اُردو پرائمری اسکول کے تین اساتذہ دفعہ 307 کے مقدمے سے بری*
- اسکول کے اندرونی تنازعات کی وجہ سے درج کیا گیا جھوٹا مقدمہ عدالت میں منہدم ہوگیا۔
بیڑ:( اسماء رئیس خان )
الہُدٰی اُردو پرائمری اسکول، بیڈ کے تین اساتذہ پر دسمبر 2015 میں درج کیا گیا سنگین فوجداری دفعہ 307، 323، 427، 506، 34 کا مقدمہ آخرکار عدالت میں قائم نہ رہ سکا۔ دس سال سے زیادہ مدت سے چل رہے اس معاملے میں تینوں اساتذہ کو معزز ضلع پرنسپل جج بیڑ نے بری کر دیا۔
اس سلسلے میں مزید معلومات یوں ہے کہ الہُدٰی اُردو پرائمری اسکول، بیڑ یہ اسکول نور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعہ چلائی جاتی ہے اور بیڑ شہر کا ایک نامور اُردو پرائمری اسکول ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے اساتذہ برخلاف ہیڈ ماسٹر اور سوسائٹی کے درمیان حقوق کے لیے جہدوجہد جاری تھی۔ مذکورہ مقدمے میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر مومن عبدالظفر عبدالعزیز نے مدعی کی حیثیت سے اسکول کے تین اساتذہ ، سید محمد ندیم، قادری پرویز اور مرزا شارق بیگ کے خلاف بیڑ شہر پولیس اسٹیشن میں دسمبر 2015 میں مقدمہ درج کر وایاتھا۔ شکایت میں تینوں معاون اساتذہ کا بحیثیت ملزم اندراج ہوا تھا۔
5 دسمبر 2025 کو ضلع و سیشن عدالت کے پرنسپل جج (Principal District and Sessions Judge) معزز یاولکرصاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے، مدعی کی طرف سے کوئی بھی ٹھوس ثبوت ثابت نہ ہونے کے باعث تینوں اساتذہ کی تمام الزامات سے بری ہونے کا اعلان کیا۔
اس معاملے میں حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ ایس۔ وی۔ سُلاکھے نے پیروی کی ۔ جبکہ ملزمین میں سے محمد ندیم اور قادری پرویز کی جانب سے ایڈوکیٹ منگیش پوکلے اور مرزا شارق بیگ کی جانب سے ایڈوکیٹ بھیم راؤ چوہان نے دلائل کے ذریعے مؤثر انداز میں اپنا موقف پیش کیا۔ دونوں فریقین کے وکلاء نے ثبوتوں، گواہوں اور واقعات کے تسلسل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر عدالت کے سامنے حقیقت واضح کی، جس سے ملزم اساتذہ کو انصاف دلانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اسکول، سوسائٹی اور تینوں اساتذہ کیے اندرونی تنازعات سے یہ جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا تھا، یہ بات دفاع کی جانب سے عدالت میں واضح کی گئی۔ ان کے پرزور، مضبوط قانونی دلائل اور مؤثر پیروی کی جس کی تعلیمی حلقوں میں خاص تعریف و توصیف ہو رہی ہے۔
گزشتہ دہائی میں خانگی تعلیمی اداروں میں ناانصافی، تنازعات اور داخلی کشمکش ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ اسی پس منظر میں، اس جھوٹے مقدمے کے اندراج میں کچھ ادارہ جاتی عناصر نے بھی تعاون کیا تھا، اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے تینوں اساتذہ نے عدالت میں اپنا موقف مضبوطی سے رکھا اور آخرکار یہ مقدمہ میں کامیاب حاصل کی ۔ اس فیصلے سے اساتذہ کی دس سالہ جدوجہد کو انصاف ملا ہے اور سچائی اور ایمانداری کی جیت ہوئی ہے، ایسے تاثرات کا اساتذہ کی جانب سے اظہار ہوا ہے۔ واقعی درست کہا گیا ہے:
“مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے!
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے!”


